Powered By Blogger

Sunday, July 27, 2014

baloch news


?????امام غزالی فرماتے ہیں کہ;
ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻏﻼﻡ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮔﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﻏﻼﻡ ﺍﺳﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﮔﯿﺎ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻏﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﯿﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﺲ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭼﻐﻠﯽ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮨﮯ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻏﻼﻡ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﻥ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻏﻼﻡ ﮐﯽ ﭼﻐﻞ ﺧﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮔﻞ ﮐﮭﻼﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺷﻮﮨﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺑﺎﻧﺪﯼ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﮨﮯ ﻟﮩﺰﺍ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺳﻮﻧﮯ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﺘﺮﮮ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﺎﻝ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﺳﺤﺮ ﮐﺮﺍ ﮐﺮ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﺮ ﺳﮑﻮﮞ-
ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﺮﮮ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﺩﮬﺮ ﻏﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻗﺎ ﺳﮯ ﺟﺎﮐﺮ ﯾﻮﮞ ﺑﺎﺕ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺳﮯ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ ﺭﮨﻨﺎ----- ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺳﺘﺮﮦ ﻻ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻏﻼﻡ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺧﺒﺮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺳﭽﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻗﺒﻞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﮧ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﺘﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﺍﺳﺘﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺗﻤﺎﻡ ﮐﺮﺩﯾﺎ--
ﺟﺐ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﮐﺮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﭼﮭﮯ ﺧﺎﺻﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﻧﺮﯾﺰﯼ ﮐﯽ ﻧﻮﺑﺖ ﺁﮔﺌﯽ..
(اﺣﯿﺎء ﺍﻟﻌﻠﻮﻡ جلد3 صفحہ90)
ﺍﻟﻐﺮﺽ ﭼﻐﻠﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺮﯼ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﻓﺴﺎﺩ ﮐﯽ ﺁﻣﺎﺟﮕﺎﮦ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ -
ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺰﯾﻔﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ??ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﻐﻞ ﺧﻮﺭﯼ ﺁﺩﻣﯽ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ.

Friday, July 25, 2014

baloch news

                                                                                            ??   جمعۃ الوداع، یوم القدس، اتحاد امت کا مظہر
                                                                                                          ??     تحریر:- چوہدری محسن حسن??
  جس طرح ماہ رمضان المبارک کو سال بھر کے باقی مہینوں کی نسبت زیادہ فضیلت و مرتبہ حاصل ہے، اسی طرح    جمعۃ المبارک کو اسلامی نقطہ نگاہ سے ایک خاص اور الگ مقام حاصل ہے-ایام اور مہینوں کے ان فضائل و مراتب  میں رمضان الکریم کا آخری جمعۃ المبارک شان میں افضل ترین ہے-جسے سید الایام، جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے۔جمعۃ الوداع ایسا یوم ہے جس پر امت مسلمہ تفریق کا شکار نہیں بلکہ اتحاد کا نمونہ ہے جبکہ قبلہ اول بیت المقدس تمام مسلمانوں کے نزدیک یکساں واجب الاحترام و تکریم ہے۔جمعۃ الوداع، یوم القدس اسرائیل کے خلاف، قبلہ اول کی آزادی، فلسطین کی آزادی، غزہ کے مظلومین سے اظہار یکجہتی کا دن ہے۔ نماز جمعہ کے بعد دنیا بھر کی شاہراؤں پر اسرائیل کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ امت مسلمہ اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر حاصل کرنے میں آج بھی اپنے اصولی موقف پر قائم ہے۔ یوم القدس یوم نصرت الہی ہے۔ یہ دنیا کے ان مظلوموں کی نصرت کا دن ہے کہ جن کو ان کی سرزمینوں سے نکال دیا گیا ہے، جن کے گھروں پر قبضے کر لئے گئے ہیں، جن کے بچوں کو قتل کیا گیا ہے، جن کے گھروں کو بھاری مشینری سے مسمار کر دیا گیا ہے، جن کے اہل و عیال کو ان کے معصوم بچوں سمیت گولیوں اور ٹینکوں کے گولوں سے چھلنی کر دیا گیا ہے۔جمعۃ الوداع یوم القدس کا عملی تقاضا ہے کہ اس روز مسلمان متحد ہو کر اٹھ کھڑے ہوں اور انبیا علیہم السلام کی سرزمین فلسطین اور مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے مشترکہ جدوجہد کریں۔ یہ بابرکت دن مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور محبت کی علامت بھی ہے اور مظلوم فلسطینیوں اور قبلہ اول مسجد اقصٰی بیت المقدس کی بازیابی کا دن بھی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان بلاتفریق رنگ و نسل، مسلک و مکتب باہم متحد ہوجائیں اور اپنے مشترکہ دشمن امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف آواز بلند کریں۔ اسرائیل کے خلاف برسرپیکار حزب اللہ، حماس اور دیگر تحریکوں کے ہاتھ مضبوط کریں۔ یوم القدس کے پروگراموں، مظاہروں، ریلیوں، محافل، سیمنارز، کانفرنسوں میں بلاتفریق شرکت کریں۔ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ کے خلاف اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ قبلہ اول کی آزادی، فلسطین کی آزادی، اسرائیل کی نابودی کے یک نکاتی ایجنڈے پر ایک ہوجائیں۔ بلاشبہ جمعۃ الوداع، یوم القدس حقیقی معنوں میں اتحاد امت کا مظہر ہے اور اسرائیل سمیت تمام اسلام دشمن قوتوں کو اتحاد امت سے ہی شکست 
                                                                                                                            ??دی جاسکتی ہے۔???/

baloch news

رحیم یارخان: ہلاک ہونے والوں میں 2 بھائی بھی شامل،پولیس?

baloch news

رحیم یارخان :ہلاک افراد کا تعلق لیاقت پوراور امین آباد سے ہے،پولیس?

baloch news

رحیم یارخان:لیاقت پورمیں زہریلی شراب پینے سے 6 افراد ہلاک،پولیس?

baloch news


ﻻﮨﻮﺭ: ﺟﯽ ﭨﯽ ﺭﻭﮈ ﭘﺮ ﭨﺮﯾﻠﺮ ﮐﯽ ﭨﮑﺮ??? ﺳﮯ تین ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺟﺎﮞ ﺑﺤﻖ

Wednesday, July 23, 2014

baloch news

?/امید ہے نئے ڈومیسٹک ڈھانچے سے کرکٹ میں بہتری آئے گی،نجم سیٹھی

یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔

                                       یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔


..............................?????????????????????/////////////////

یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔

پیشے کے لحاظ سے یہ ڈاکٹر تھیں۔?????/
سن 1958ء کی بات ھے اس خاتون نے 30 سال کی عمر میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔????????
پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔
یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی‘ زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘یہ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی‘ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی‘انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا‘ کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اﷲ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔?????/
چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے‘ ان کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا‘ انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا‘ اس عظیم کاتون نے اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر روتھ کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی‘ یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا‘ اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی‘ ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا ۔?????//
یوں یہ سینٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘ان ہوں نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا‘ ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے‘ یہ واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئی‘ جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔ وہ پاکستان میںجزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔///
یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ان کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا‘ پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا‘ یہ لوگ اب قبائلی علاقے اور ہزارہ میں جزام کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔???????/
حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی‘ اسے ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ ’’ڈیزرو‘‘ کرتی ہے‘ جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آ جانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے‘ جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔
ان کا نام ڈاکٹر روتھ فاؤ ھے۔۔/
ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے ۔ ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون‘ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔/           

baloch news

عید کو دو ہی دن رہ گئے تھے. بوڑھے نے اپنے بیٹے کو فون کیا ..."بیٹا میں تمھیں ان خوشی کے دنوں میں تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا مگر کیا کروں کہے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے. میں اور تمھاری ماں علیحدہ ہورہے ہیں.بہت ہوچکا اب اس سے ذیادہ جھنجھٹیں میں برداشت نہیں کرسکتا"
"کیا؟؟؟ آپ کیا بول رہے ہیں ابو" بیٹا چیخ پڑا//
"ہم اب ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے" بوڑھے باپ نے واضح کردیا "ہم ایک دوسرے سے بیزار ہوچکے ہیں اور میں اس موضوع پر مزید کوئی گفتگو کرنے سے قاصر ہوں. تم دوسرے شہر رہنے والی بہن کو بھی فون کرکے اسکی اطلاع دے دو"//
بیٹے نے گھبرا کر اپنی بہن کو فون کیا اور بتایا کہ ہمارے ماں باپ طلاق لے رہے ہیں!!!
بیٹی نے خبر سنی تو دیوانوں کی طرح چلا اٹھی "کیا کہہ رہے ہو بھیا .... ایسا نہیں ہوسکتا . میں ابھی ابو کو فون کرتی ہوں دیکھتی ہوں ایسا کیسے کرسکتے ہیں وہ"
لڑکی نے اپنے وطن رہنے والے باپ کو فون ملایا اور چیخنے چلانے لگی "آپ ایسا نہیں کریں گے. یہ کوئی عمر ہے طلاق لینے کی. میں آرہی ہوں جب تک میں نہ آجاؤں آپ اس سلسلے میں ایک بھی قدم نہیں اُٹھائیں گے. میں بھائی کو فون کر کے ساتھ چلنے کو کہتی ہوں. ہم دونوں کل تک آرہے ہیں کسی بھی صورت میں. اور کل تک آپ کچھ نہیں کریں گے. آپ سن رہے ہیں ناں میری بات؟؟" اتنا کہہ کر اس نے فون بند کردیا
بوڑھے نے فون رسیور پر رکھا اور بیوی سے مخاطب ہو کر بولا ......
"مسئلہ حل ہوگیا ہے ... پورے تین سال بعد وہ دونوں آرہے ہیں اور عید ہمارے ساتھ ہی کریں گے..

baloch news

 ایک فوجی جوان کو بات بات پر شرط لگانے کی عادت تھی۔ اُس کی اِس عادت سے سینئر اور جونیئر سبھی ناخوش  ''تھے'''۔ اور مزے کی بات یہ تھی کہ وہ شرط کبھی نہیں ہارتا تھا، اِس لیے لوگ ذرا سوچ سمجھ کے ہی اُس کی ''''''شرط قبول کرتے تھے۔
ایک دِن اُس کے سینئر افسر نے اُسے سبق سیکھانے کی غرض سے دوسرے شہر ٹرانسفر کرنے کا سوچا، جہاں کا افسر بہت ہی سخت اور غصے والا تھا، اور بھیجنے سے پہلے وہاں پر موجود اپنے ہم منصب افسر سے ''کہا کہ "اِس جوان کو ایسا سبق سکھاؤ کہ یہ پھر کبھی زندگی بھر شرط نہ لگائے"
دوسرے دِن یہ فوجی جوان اپنے نئے فوجی کیمپ میں موجود تھا۔ وہاں اُس کے لیے ایک تعارفی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں اُس کیمپ کے سبھی چھوٹے بڑے جونیئر اور سینئر جوانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ تقریب کے دوران افسر نے اُس جوان کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی اور نئی جگہ کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرنے کو کہا۔
یہ جوان جو شرط لگانے کے معاملے میں اپنی عادت سے مجبور تھا اُس سے رہا نہ گیا۔ اور اسٹیج پر آتے ہی سینئر افسر کو مخاطب کرتے ہوئے بولا، "سر! مجھے کسی نے بتایا ہے کہ ایک روز آپ کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہو گیا تھا تو غصے میں آ کر اُس نے آپ کو بیلنہ دے مارا تھا اور آپ کی کمر پر آج بھی اُس کا نشان ہے، کیا یہ سچ ہے۔۔؟"
تقریب میں موجود سبھی لوگ اُس کے اِس بیہودہ سوال سے ناخوش تھے، لیکن سینئر افسر نے مسکراتے ہوئے '"نفی" میں جواب دیا۔
لیکن اُس فوجی جوان' نے شرط طے کر لی کہ "اگر آپ کی کمر پر وہ نشان موجود نہ ہوا تو میں آپ کو ہزار روپے بطور 'ہرجانہ ادا کروں گا اور اگر ہوا تو آپ مجھے دیں گے۔"
وہ افسر جو پہلے سے ہی اِس صورتحال کے لیے ت'یار تھا اُس نے آہستہ آہستہ اپنی شرٹ کے بٹن کھولنا شروع کیے، شرٹ اُتاری اور پھر دھیرے دھیرے بنیان بھی اُتاری اور گھوم کر سب کو اپنی کمر دکھائی جہاں کسی قسم کا کوئی نشان نہ تھا۔ اب چونکہ یہ جوان شرط ہار گیا تھا تو اُسے مجبوراً ہزار روپے بطور ہرجانہ اُس افسر کو ادا کرنے ''''''''پڑے۔
تقریب ختم ہونے پر یہ افسر فاتحانہ انداز میں اپنے آفس میں آیا اور خوشی خوشی ٹیلی فون اُٹھا کر دوسرے شہر اُس فوجی جوان کے سابقہ اپنے ہم منصب افسر کو فون کیا اور بولا "جناب! آپ تو کہہ رہے تھے کہ وہ فوجی جوان کبھی شرط نہیں ہارتا، لیکن میں نے تو آج اُسے پہلی ہی شرط میں ہرا کر بڑا اچھا سبق دیا ہے۔۔۔!"
''''''''''سابقہ افسر بولا، "اچھا! وہ کیسے۔۔؟"
یہ موجودہ افسر بولا، "اُس نے بھری محفل میں مجھے شرٹ اُتار کر زخم کا نشان دکھانے کو کہا تھا۔۔۔!"
سابقہ افسر: "تو کیا آپ نے سب کے سامنے شرٹ اُتار دی۔'''''''۔؟؟"
موجودہ افسرِ: "جناب! کیا بات کر رہے ہیں، اُسے سبق سکھانا تھا تو اِس لیے میں نے شرٹ اور بنیان دونوں اُتار کر ''اپنی کمر دکھائی۔۔"!
''''سابقہ افسر: "مر گئے یار، مروا دیا، یہ اچھا نہیں ہوا۔!"
موجودہ افسر: "جناب! میں شرط جیت گیا ہوں آپ مرنے مارنے کی بات کیوں کر رہے ہو؟"
سابقہ افسر: "دراصل وہ جوان جاتے جاتے مجھ سے شرط لگا گیا تھا کہ، اگر وہ سب کے سامنے دوسرے شہر کے افسر کی شرٹ اور بینان اُتروانے میں کامیاب ہوا تو میں اُسے 3 ہزار روپے دونگا????/'۔۔!"

Tuesday, July 22, 2014

baloch news

ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺷﺐ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺼﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﻡ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺍﻭﺭ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﯽ ۔ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﯿﺴﯽ ﮨﮯ ? ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻼ ﮐﮧ "..ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﻧﺪﯼ ﻣﺸﺎﻃﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﺳﮯ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﮯ".. ﭘﮭﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻗﺼﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ !... "ﻣﺸﺎﻃﮧ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﺩﻣﮧ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺧﻔﯿﮧ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﻻ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﮐﻨﮕﮭﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﺗﻔﺎﻗﺎًً ﮐﻨﮕﮭﯽ ﮔﺮ ﭘﮍﯼ ۔ ﻭﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﮩﺰﺍﺩﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺁﺝ ﻋﺠﯿﺐ ﮐﻠﻤﮧ ﺑﻮﻻ ﺭﺏ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ? ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ": ﻓﺮﻋﻮﮞ ﺭﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺭﺏ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﻪ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﻮ ﺭﻭﺯﯼ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ۔" ﺷﮩﺰﺍﺩﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺏ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ ? ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ": ﮨﺎﮞ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ,ﺳﺐ ﮐﺎ ﺭﺏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﯽ ﮨﮯ ۔" ﺷﮩﺰﺍﺩﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﮐﮩﻠﻮﺍﯾﺎ ۔ ﻭﮦ ﺳﺨﺖ ﻏﻀﺒﻨﺎﮎ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﺳﮯ ﺑﺮﺳﺮ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﺑﻠﻮﺍ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ,ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺏ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ ? ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ".. ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﻠﻨﺪﯾﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺰﺭﮔﯽ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ۔" ﻓﺮﻋﻮﻥ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﺎﻧﺒﮯ ﮐﯽ ﺟﻮ ﮔﺎﺋﮯ ﺑﻨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ,ﺍﺱ ﮐﻮ ﺧﻮﺏ ﺗﭙﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺁﮒ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ... ﭼﻨﺎﭼﮧ ﻭﮦ ﮔﺮﻡ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ۔ﺟﺐ ﺁﮒ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻭ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ": ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﺮﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻥ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﮨﮉﯾﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﮕﮧ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﻨﺎ ۔" ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ": ﺍﭼﮭﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﮐﭽﮫ ﺣﻘﻮﻕ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺫﻣﮧ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﮯ
?
ﺍﺳﮑﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﭽﯿﺎﮞ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﺋﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻓﻮﺭﺍ" ﺟﻞ ﮐﺮ ﺭﺍﮐﮫ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﭘﮭﺮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﻮ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﺗﯽ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ... ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﮯ ﺳﭙﺎﮨﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺴﯿﭩﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﯿﮏ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ.. ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺯﺑﺎﻥ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺎ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﮩﺎ": ﺍﻣﺎﮞ ﺟﺎﻥ ! ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮ ,ﺍﻣﺎﮞ ﺟﺎﻥ ﺫﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﭘﺲ ﻭ ﭘﯿﺶ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ۔ﺣﻖ ﭘﺮ ﺟﺎﻥ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻧﯿﮑﯽ ﮨﮯ.,ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﺒﺮ ﺁﮔﯿﺎ ۔ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﺟﻼ ﮐﺮ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺎ"... "ﯾﮧ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﯽ ﻣﮩﮑﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺟﻨﺘﯽ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ۔"ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ (/1 309 ۔310 ) ﺻﺤﯿﺢ ??(5/31

Sunday, July 13, 2014

BALOCH INSURGENCIES 1948-1977

                         BALOCH INSURGENCIES 1948-1977



Wahe Watan O Hushkien Dar The fatherland even barren is worth anything
Balochi saying ????

People with a warlike spirit, wearing exalted plumes, like the cocks comb, on their turbans. 
Firdausi in Shahnama?????

The present day insurgency in Balochistan is a continuum of the intermittent guerrilla struggle against the Pakistani state that has characterized Balochistan since 1948. The insurgency in 2004-05 is only different from the ones in 1948-52, 1958-60, 1962-69 and 1973-77 in the scale of the violence and the geographical spread of the insurgency. The causes, the issues, the demands and the goal continue to be the same.
??
On August 15, 1947, a day after Pakistan came into existence, the Khan of Kalat had declared independence. Kalats independent status had been affirmed several times by the Muslim League and by the Kalat National Assembly. Despite this, on 1 April 1948, the Pakistan Army marched into Kalat and arrested the Khan who capitulated. His brother, Prince Abdul Karim (with the Khans tacit approval) however, declared a revolt proclaiming the independence of Kalat and issued a manifesto in the name of the Baloch National Liberation Committee rejecting the accession agreement signed by the Khan. Karim hoped to obtain Afghan support since Afghanistan had objected to the inclusion of the Baloch and Pashtun areas in Pakistan and had even opposed the admission of Pakistan to the United Nations. While the Pakistani version is that Karim received substantial Afghan support, the Baloch nationalist version is that Afghanistan denied support since it favoured the inclusion of Balochistan in Afghanistan rather than an independent Balochistan.


First Guerrilla Revolt ???

Prince Abdul Karim launched guerrilla operations against the Pakistan Army in Jhalawan district in late May, 1950, but the Khan, threatened with reprisals by Pakistani Army authorities, persuaded his brother to surrender with assurances of safe conduct and amnesty from the Pakistan Army. Pakistani officers reportedly signed a safe conduct agreement with Abdul Karims representatives and swore an oath on the Koran to uphold it. However, Pakistani forces dishonoured the agreements by ambushing and arresting the Prince and 102 of his accomplices on their way to Kalat in 1950. Karims revolt is important in Baloch history for two reasons. First, it established that the Baloch did not accept the accession of Kalat with Pakistan. Second, it led to the wide-spread Baloch belief that Pakistan had betrayed the safe conduct agreement. The Baloch regard this as a first series of broken treaties that have created distrust between them and Islamabad. Karim and his followers were all sentenced to long prison terms and became rallying symbols for the Baloch liberation movement.


The Second Revolt ???/

The next violent outbreak of Baloch sentiments came in 1958. This was the direct result of the centralising policies pursued by the Pakistani leaders. Fears of Bengali domination in the 1950s had propelled the Punjabi leaders, who controlled the levers of power, to consolidate the Western Wing of Pakistan into a unified province to counter Bengali numerical strength. This One Unit plan was resisted by the Baloch, both by Abdul Karim who had completed his prison term in 1955 and the Khan who mobilised wide spread demonstrations through tribal chieftains. Balochi nationalists within the Khanate took serious exception to the One Unit scheme and in a meeting with Pakistani president Iskander Mirza in October 1957 they urged Iskander Mirza to exempt Kalat from the One Unit scheme, and to allot more government spending on developmental activities in Kalat. But Ayub Khans ambitions changed the political matrix in Pakistan and when some Baloch sardars started non-cooperating with the Pakistani commissioner, under a flimsy pretext that the Khan had raised a parallel army to attack Pakistani military, Ayub ordered Pakistani army to march into Kalat on 6 October 1958, a day before he imposed martial rule in Pakistan. The army arrested the Khan and his followers and accused them of secretly negotiating with Afghanistan for a full-scale Baloch rebellion.
?????????
The arrest touched off a chain reaction of violence and counter-violence with the government bombing villages suspected of harbouring guerrillas. Pakistan military's campaigns in Danshera and Wad were resisted by the Jhalawan Sardars loyal to the Khan. The octogenarian Chief of the Zehri tribe in Jhalawan, Nauroz Khan put up a stiff resistance in the Mir Ghat mountains, but the Pakistani military swore an oath by the Quran and urged Nauroz to give up arms and prepare for negotiations.

Nauroz surrendered in anticipation of safe conduct and amnesty but the army put Nauroz and his sons behind the bars as soon as they laid down their arms. Naurozs sons were hanged soon afterwards, in Hyderabad and Sukur, in July 1960. A shocked and surprised Nauroz died soon afterwards in Kohlu prison in 1962. Ayubs message to the Balochis of Kalat who were the first to challenge the might of the Pakistani state, was clear. He reportedly threatened the total extinction of Balochis if they did not mend their ways.

The 1958 revolt was followed by the Pakistan Army setting up new garrisons at key points in the interior of Balochistan. This in turn provoked the Baloch to plan for more armed guerrilla movements capable of defending Balochi interests. The movement was led by Sher Mohammed Marri who was far-sighted enough to realise that thedisorganised random struggle adopted so far would have to be transformed into a classic guerrilla warfare. For this purpose, he set up a network of base camps spread from the Mengal tribal areas of Jhalawan in the South to the Marri and Bugti areas in the North. The Pararis, as the guerrillas were called, ambushed convoys, bombed trains and so on. In retaliation, the army staged savage reprisals. For example, the Army bulldozed 13,000 acres of almond tress owned by Sher Mohammed and his relatives in the Marri area. The fighting continued sporadically until 1969 when the Yahya Khan withdrew the One Unit plan and got the Baloch to agree to a ceasefire. Despite the ceasefire, the Pararis assumed that the renewal of the hostilities with Islamabad would be unavoidable sooner or later. As such, the organisational infrastructure was kept intact and cadres continued to be trained.

Third Balochi Resistance: The 1970s ????/

The nationalist Balochis took to rudimentary politics during Ayubs practice of Basic Democracy in Pakistan. They struck a chord of unity with the Pakhtuns in NWFP and formed a National Awami Party (NAP) upon the dissolution of the One Unit scheme in 1970. In the elections of 1971, while Bhuttos PPP swept the polls in West Pakistan, the NAP won in Balochistan and NWFP. The attacks on Punjabi settlers in Quetta and Mastung in early 1973, the perceived defiance of the Ataullah Mengal-led government in Balochistan and the discovery of a large consignment of weapons in the Iraqi embassy were woven together to be served as conclusive evidence of the Balochis militant intentions and General Tikka Khan was sent to Balochistan to lead the second military attack on Baloch nationalists. Pakistan, smarting under the shock of vivisection in 1971, certainly over-reacted to the Balochi nationalist assertion. The immediate provocation for the Baloch resistance was Bhuttos dismissal of the Baloch provincial government in February 1973 in which Ghaus Bux Bizenjo was Governor and Attaullah Mengal Chief Minister. Bhutto alleged that the government had repeatedly exceeded its constitutional authority and alleged that this had been done in collusion with Iraq and the Soviet Union as part of a plot to dismember both Pakistan and Iran. The dismissal was timed with the disclosure of a cache of 300 Soviet sub-machine guns and 48,000 rounds of ammunition allegedly consigned to Baloch leaders that were found in the house of the Iraqi Defence Attaché in Islamabad. It was, however, subsequently revealed that the arms had actually been found in Karachi and were meant for Iranian Baloch in retaliation against Irans support to Iraqi Kurds and that the Iraqi Defence Attaché had collaborated with Iranian and Pakistani intelligence agents in staging the arms exposure to put pressure on the Iranians.

Following the dismissal of their government, Baloch guerrillas began to ambush army convoys from April 1973. Bhutto retaliated by sending in the army to Balochistan and by putting three veteran nationalist leaders of Balochistan Ghous Bux Bizenjo, Ataullah Khan Mengal and Khair Bux Marri, behind the bars. The armed struggle continued over the next four years with varying degrees of severity. At the height of the war there were over 80,000 Pakistani troops in the province. The fighting was more wide-spread than it had been in 1950s and 1960s. The guerrillas succeeded by July 1974 to cut off most of the main roads linking Balochistan with surrounding provinces and to periodically disrupt the Sibi-Harnai rail link thereby blocking coal shipments from the Baloch areas to the Punjab. Additionally, attacks on drilling and survey operations stymied oil exploration activities.

The then Shah of Iran, apprehending trouble in Iranian Balochistan, supported the Pakistan forces in decimating the Baloch resistance. The Shah sent in 30 US Cobra Helicopters manned by Iranian pilots who pounded the Baloch pockets of resistance. The turning point came during the 6-day battle at Chamalang in the Marri area in September 1974. In line with the Pakistan armys scorched earth policy, an army ground and air offensive in the winter of 1974 on the Baloch tribes, largely Marris, along with their families, who had gathered in an annual pilgrimage to the Chamalang plains to graze their flocks, inflicted heavy human and livestock casualties. While casualties on both sides were heavy, the Baloch were unable to regain the military initiative in the ensuing years.

Most of the Balochi leaders left Pakistan and went into exile in Afghanistan, the UK and other places outside Pakistan. Several Baloch groups migrated to Afghanistan where they were permitted to set up camps by Mohd Daud. Even if Bhutto claimed to have wiped out Baloch resistance, he played a big role in the transformation of dispersed Pararis into the Balochistan Peoples Liberation Front (BPLF) in 1976, led by Mir Hazar Khan Marri, who broke away from Baloch Students Organisation (BSO) led by Sher Muhammad Marri.

The anti-Bhutto sentiments of the Baloch nationalists were well manipulated by Zia ul Haq after he seized power in 1977 and his show of clemency was received well by many Baloch leaders including the Baloch triumvirate: Ghaus Bux Bizenzo, Ataullah Mengal and Akbar Khan Bugti. However, a rebel faction of the Marris continued defying the Pakistani administration. And, as a proof of the irreconcilability of Balochi nationalism with the Pakistani state-nationalism, the most aggressive and fiercely independent of all Baloch factions, the Baloch Students Union (BSO), reorganised and reasserted itself in the early 1990s.

Reference Book:

Selig S. Harrison in his book cited below analyses the insurgenciesbetween 197 and 1977 ina splendid manner. His book is:
In Afghanistans Shadow Baluchistan: Baluch Nationalism and Soviet
Temptations, 1981, New York / Washington: Carnegie Endowment
for International Peace.???????/