Powered By Blogger

Wednesday, July 23, 2014

baloch news

?/امید ہے نئے ڈومیسٹک ڈھانچے سے کرکٹ میں بہتری آئے گی،نجم سیٹھی

یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔

                                       یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔


..............................?????????????????????/////////////////

یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔

پیشے کے لحاظ سے یہ ڈاکٹر تھیں۔?????/
سن 1958ء کی بات ھے اس خاتون نے 30 سال کی عمر میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔????????
پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔
یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی‘ زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘یہ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی‘ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی‘انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا‘ کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اﷲ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔?????/
چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے‘ ان کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا‘ انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا‘ اس عظیم کاتون نے اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر روتھ کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی‘ یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا‘ اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی‘ ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا ۔?????//
یوں یہ سینٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘ان ہوں نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا‘ ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے‘ یہ واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئی‘ جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔ وہ پاکستان میںجزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔///
یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ان کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا‘ پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا‘ یہ لوگ اب قبائلی علاقے اور ہزارہ میں جزام کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔???????/
حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی‘ اسے ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ ’’ڈیزرو‘‘ کرتی ہے‘ جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آ جانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے‘ جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔
ان کا نام ڈاکٹر روتھ فاؤ ھے۔۔/
ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے ۔ ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون‘ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔/           

baloch news

عید کو دو ہی دن رہ گئے تھے. بوڑھے نے اپنے بیٹے کو فون کیا ..."بیٹا میں تمھیں ان خوشی کے دنوں میں تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا مگر کیا کروں کہے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے. میں اور تمھاری ماں علیحدہ ہورہے ہیں.بہت ہوچکا اب اس سے ذیادہ جھنجھٹیں میں برداشت نہیں کرسکتا"
"کیا؟؟؟ آپ کیا بول رہے ہیں ابو" بیٹا چیخ پڑا//
"ہم اب ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے" بوڑھے باپ نے واضح کردیا "ہم ایک دوسرے سے بیزار ہوچکے ہیں اور میں اس موضوع پر مزید کوئی گفتگو کرنے سے قاصر ہوں. تم دوسرے شہر رہنے والی بہن کو بھی فون کرکے اسکی اطلاع دے دو"//
بیٹے نے گھبرا کر اپنی بہن کو فون کیا اور بتایا کہ ہمارے ماں باپ طلاق لے رہے ہیں!!!
بیٹی نے خبر سنی تو دیوانوں کی طرح چلا اٹھی "کیا کہہ رہے ہو بھیا .... ایسا نہیں ہوسکتا . میں ابھی ابو کو فون کرتی ہوں دیکھتی ہوں ایسا کیسے کرسکتے ہیں وہ"
لڑکی نے اپنے وطن رہنے والے باپ کو فون ملایا اور چیخنے چلانے لگی "آپ ایسا نہیں کریں گے. یہ کوئی عمر ہے طلاق لینے کی. میں آرہی ہوں جب تک میں نہ آجاؤں آپ اس سلسلے میں ایک بھی قدم نہیں اُٹھائیں گے. میں بھائی کو فون کر کے ساتھ چلنے کو کہتی ہوں. ہم دونوں کل تک آرہے ہیں کسی بھی صورت میں. اور کل تک آپ کچھ نہیں کریں گے. آپ سن رہے ہیں ناں میری بات؟؟" اتنا کہہ کر اس نے فون بند کردیا
بوڑھے نے فون رسیور پر رکھا اور بیوی سے مخاطب ہو کر بولا ......
"مسئلہ حل ہوگیا ہے ... پورے تین سال بعد وہ دونوں آرہے ہیں اور عید ہمارے ساتھ ہی کریں گے..

baloch news

 ایک فوجی جوان کو بات بات پر شرط لگانے کی عادت تھی۔ اُس کی اِس عادت سے سینئر اور جونیئر سبھی ناخوش  ''تھے'''۔ اور مزے کی بات یہ تھی کہ وہ شرط کبھی نہیں ہارتا تھا، اِس لیے لوگ ذرا سوچ سمجھ کے ہی اُس کی ''''''شرط قبول کرتے تھے۔
ایک دِن اُس کے سینئر افسر نے اُسے سبق سیکھانے کی غرض سے دوسرے شہر ٹرانسفر کرنے کا سوچا، جہاں کا افسر بہت ہی سخت اور غصے والا تھا، اور بھیجنے سے پہلے وہاں پر موجود اپنے ہم منصب افسر سے ''کہا کہ "اِس جوان کو ایسا سبق سکھاؤ کہ یہ پھر کبھی زندگی بھر شرط نہ لگائے"
دوسرے دِن یہ فوجی جوان اپنے نئے فوجی کیمپ میں موجود تھا۔ وہاں اُس کے لیے ایک تعارفی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں اُس کیمپ کے سبھی چھوٹے بڑے جونیئر اور سینئر جوانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ تقریب کے دوران افسر نے اُس جوان کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی اور نئی جگہ کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرنے کو کہا۔
یہ جوان جو شرط لگانے کے معاملے میں اپنی عادت سے مجبور تھا اُس سے رہا نہ گیا۔ اور اسٹیج پر آتے ہی سینئر افسر کو مخاطب کرتے ہوئے بولا، "سر! مجھے کسی نے بتایا ہے کہ ایک روز آپ کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہو گیا تھا تو غصے میں آ کر اُس نے آپ کو بیلنہ دے مارا تھا اور آپ کی کمر پر آج بھی اُس کا نشان ہے، کیا یہ سچ ہے۔۔؟"
تقریب میں موجود سبھی لوگ اُس کے اِس بیہودہ سوال سے ناخوش تھے، لیکن سینئر افسر نے مسکراتے ہوئے '"نفی" میں جواب دیا۔
لیکن اُس فوجی جوان' نے شرط طے کر لی کہ "اگر آپ کی کمر پر وہ نشان موجود نہ ہوا تو میں آپ کو ہزار روپے بطور 'ہرجانہ ادا کروں گا اور اگر ہوا تو آپ مجھے دیں گے۔"
وہ افسر جو پہلے سے ہی اِس صورتحال کے لیے ت'یار تھا اُس نے آہستہ آہستہ اپنی شرٹ کے بٹن کھولنا شروع کیے، شرٹ اُتاری اور پھر دھیرے دھیرے بنیان بھی اُتاری اور گھوم کر سب کو اپنی کمر دکھائی جہاں کسی قسم کا کوئی نشان نہ تھا۔ اب چونکہ یہ جوان شرط ہار گیا تھا تو اُسے مجبوراً ہزار روپے بطور ہرجانہ اُس افسر کو ادا کرنے ''''''''پڑے۔
تقریب ختم ہونے پر یہ افسر فاتحانہ انداز میں اپنے آفس میں آیا اور خوشی خوشی ٹیلی فون اُٹھا کر دوسرے شہر اُس فوجی جوان کے سابقہ اپنے ہم منصب افسر کو فون کیا اور بولا "جناب! آپ تو کہہ رہے تھے کہ وہ فوجی جوان کبھی شرط نہیں ہارتا، لیکن میں نے تو آج اُسے پہلی ہی شرط میں ہرا کر بڑا اچھا سبق دیا ہے۔۔۔!"
''''''''''سابقہ افسر بولا، "اچھا! وہ کیسے۔۔؟"
یہ موجودہ افسر بولا، "اُس نے بھری محفل میں مجھے شرٹ اُتار کر زخم کا نشان دکھانے کو کہا تھا۔۔۔!"
سابقہ افسر: "تو کیا آپ نے سب کے سامنے شرٹ اُتار دی۔'''''''۔؟؟"
موجودہ افسرِ: "جناب! کیا بات کر رہے ہیں، اُسے سبق سکھانا تھا تو اِس لیے میں نے شرٹ اور بنیان دونوں اُتار کر ''اپنی کمر دکھائی۔۔"!
''''سابقہ افسر: "مر گئے یار، مروا دیا، یہ اچھا نہیں ہوا۔!"
موجودہ افسر: "جناب! میں شرط جیت گیا ہوں آپ مرنے مارنے کی بات کیوں کر رہے ہو؟"
سابقہ افسر: "دراصل وہ جوان جاتے جاتے مجھ سے شرط لگا گیا تھا کہ، اگر وہ سب کے سامنے دوسرے شہر کے افسر کی شرٹ اور بینان اُتروانے میں کامیاب ہوا تو میں اُسے 3 ہزار روپے دونگا????/'۔۔!"