Powered By Blogger

Friday, January 1, 2016

baloch news

کالم!!!
عصمت_
عنوان_
وادیِ عشق کی کہانی!!!
نادان پرندے گھر آجا!!!!
کِس نے کہا تھا_
چاند کو چاہو_
چاند تھا آخر!!!!
ڈوب گیا_
ناں!!!!
کل میرا پروگرامنگ کا پیپر تھا_
یاد کروں تو کیسے-
اسی سوچ نے مجھ ناکارہ شخص کو سوچنے پر مجبور کیا_
کہ موبائل کی گھنٹی نے سرگوشی کی-
کہنے والا کہنے لگا , یار ہم تو بس -
آگے مت پوچھو!!!
بتاؤ نہ !!
میں پوچھ بیٹھا_
جب آؤ گے تب بتاؤں گا نہ!!!
موبائل بند ہوتے ہی میرا سر چکرانے لگا-
نجانے کیا ہوا-
کتاب رکھتے ہی ہم سوچتے سوچتے خوابِ خرگوش میں چلا گیا_
صبح اٹھتے ہی دُھند نے انگ انگ میں گرمی پیدا کر دی تھی-
سب سے پہلے سردی سے ہم کلام
ہوۓ-
دُھند میں لپیٹے خود کو_دسمبر کو بددعائیں دیتے_چل پڑے
یونیورسٹی_پھر مِڈ کا آخری پیپر دیا
اور دُھند میں لپٹی شہرِپردیس کو
چھوڑ کر ہم نے دیس کی
طرف راہ ِ فرار اختیار کیا_
شام ڈھلتے ہی ایک بار پھر یادوں نے گھیراؤ کیا مجھ بدنصیب کا_
اُسی شب چاند نے عین ہمارے گھر کے اوپر پڑاؤ ڈالا_
ہم نے بھی جمائ لی اور نیند کو گلے لگایا_
صبح ہوتے ہی چاند شرماتے ہوۓ دھیرے دھیرے _ میرے سامنے سے گزرتے ہوۓ کہیں دور جا نکلا_
بعد از نماز چاۓ کی چُسکی سے چُسکی لینے لگا_
کہ اچانک دروازے پر دستک گِراں گزری مجھ پر_
کون ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ آواز سنتے ہی دوست بولا_
یار چاۓ نہیں پینے آۓ_تم باہر تو آؤ ناں-
چلو یار آج اور دوست کے پاس جا کر چاۓ پیتے ہیں_دوست کے پاس پہنچنے پر دوست نے چاۓ پیش کی_
ہم دوست کی کہانی آسکی زبانی سننے لگے-
میں جب تھا بہت چھوٹا_تو نجانے کیسے وادیِ عِشق میں کود پڑا_
وہ گَنا کھاتے ہوۓ بولا_
اور ہم تین دوست اُسکی وادی عشق میں اَشک بہانے میں مصروف تھے-
پھر کیا ہوا-
گَنا ایک طرف رکھتے ہوۓ بولا_
کہ کم عمر تھے ، کم عقل تھے-
پھر بھی-
وہ میری ہمسائ تھی
ناں-بس جب لورالائ سے واپسی ہوئ اُنکی_تو جیسے چاند تھا میرے سامنے_جس نے دن کو تارے دکھا دیۓ-
میری خوش کَلی کا چہرہ نور سے چُور تھا_
خاموش کمرے میں قہقے بلند ہوۓ_
اسی دوران چاۓ بھی پینے لگے ہم_
پر وہ جیسے کسی خواب میں مگن تھا_
اُسکی نظر نے میری نظر میں آکر _ مُجھ کو ہی میری ںظر سے گِرا دیا_
اُس نورِ نظر نے!!!
اُس گُلبدن کی مہک چاروں طرف مہکنے لگی_کروں تو کروں کیسے سواگت اُن کی_
دن پورا انکی یادوں میں گزرا_
رات کو چ چاند کی چاندنی اُفک پر تھی کہ میں اسکی یادوں میں_یادوں سے باتیں کرنے میں مصروف تھا_کل صبح اٹھتے ہی یہ سُننا تھا میرے ہوش حواس آڑ گۓ تھے-
کہ وہ کوئٹہ جارہے ہیں_جیسے دنیا ہی اُجڑ گئ مُجھ ناداں کی_جس نے رانجھا بنایا تھا_اب اسی نے مجنوں کا رنگ چڑھایا_شب کٹ جاتی تھی رونے میں_آہوں میں دن ڈھل جاتا تھا_
جب لوگ سکون سے سوتے ہیں_
دیوانے اُٹھ کر روتے ہیں_
کوئ زلف کی باتیں کرتا
ہے_
کوئ حسنِ یار پہ مرتا
ہے-
آجاؤ ناں_
آدیکھ میں تیری یاد میں پاگل ہوگیا ہوں_کبھی دروازے پہ بیٹھ کر اُن کا انتظار کرتا_
اُنکی واپسی ہوئ تو میں دوبارہ اپنی زندگی میں واپس آیا_
لیکن کسی کو شک تک نہ ہوا کہ میں اپنی زندگی کو_ زندگی میں اُلجھنے جا رہا تھا_
چاۓ کی پیالی سے چسکی لیتے ہوۓ دُکھ بھرے لہجے میں بولا_
پھر ایک دن ملن کی_ وصل کی _اُمید کی_نازُک حسیں ڈوری کولیۓ میں صحن میں بیٹھا تھا_کہ نازُک پُھلجڑی دیوار سے بولی____
I loVe You A____
آئ لو یو A__
اِن الفاظ کا سُننا تھا کہ دوستوں کے ہاتھوں چاۓ گرتے گرتے بچی_
اُس دن میری خوشی دیدنی تھی_
پھر یوں ہوا جاناں _نجانے کیوں ہوا جاناں_
کہ ایک دن ماں کی ممتا اپنے لخت جگر میری جانِ جگر کو لیکر ہمارے گھر آئ ہوئ تھی_اور میں بھر پور نظروں سے اسے گھور رہا تھا_
لیکن جیسے ہی نظر تھی نظر اُٹھی تو نظر نے خونخوار نظروں کو اپنی نظر میں لے لیا_
کہ اسکی ماں میری طرف دیکھ رہی تھی_اُٹھ کر چلا گیا میں وہاں سے_
عشق تھا_کہ ہر طرف ہمارا چرچہ تھا___
دن گزرتے گۓ_دوستی بڑھتی گئ_کبھی آنکھ مچولی_تو کبھی اشاروں میں_مَحبت پروان چڑھتی گئ_
تو کبھی قربت کے بستر پر مہکتا پھول سا چہرہ آنکھیں چھپاتی نظر آتا_
اسی طرح مَحبت میں لمحے بیتتے گۓ_
کہ ایک دن دکان پر بیٹھا تھا میں ساتھ ابو کے____ابو کے موبائل کی گھنٹی نے درِ دل پہ دستک دی__
کل شام میری بیٹی کی منگنی ہے آجاناں_
ابو نے میری طرف دیکھا اور میں اُٹھ کر چلا گیا_زمیں جیسے ہل گئ تھی_
کیونکہ میری مَحبت کسی اور کی ہونے لگی تھی_
اب تو سر افلاک تارے بھی مجھے تڑپتا دیکھ کر رونے لگتے ہیں_
عجب وحشت سی ہوتی ہے_
میری سوچوں کی سُلگتی شاخ سے سب سوکھے پتے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں_
کون ہے اِس جہاں میں سواۓ اُس کے میرا_
دور جانے سے پہلے یہ تو بتا کر جاتی کہ میں سانس کیسے لوں_کِس کیلۓ لوں_کیا میری خوش کلی اب نہیں لوٹ کر آنے والی_ایک آنسو کا قطرہ چہرے کو چیرتے ہوۓ _اُس کے خشک ہونٹوں کو بوسہ دینے لگی_آخر کیوں مجھ ناداں کو سُلگتے ہوۓ چنگاریوں میں چھوڑ گئ_ارے او بے وفا میرا قصور تو بتا نہ_
خشک صحرا میں دفن کرگئ وہ مجھ کو_
یار عصمت کیسے سنبھالوں خود کو_
اُسے کیسے چھین کر
لاؤں_
وہ میری تھی-
میری ہے- اب زندگی گُم نام سے راستوں پہ رواں ہے_تنہائ تنہا میرا ساتھ دے رہا ہے_شام ڈھلے شال اوڑھے _
نجانے گھر سے میں کتنا دور نکل جاتا ہوں_
کیونکہ مَحبت کہیں تاج محل بن کر کھڑا مُسکرا رہا ہے_تو کہیں تھلوں میں اُسکےنشاں بنے ہوۓ ہیں_
دسمبر جاتے ہوۓ ہمارے دوست کا چین بھی ساتھ لے گیا_
نجانے ایسے کیوں ہوتا ہے-
اس سوال کا شاید جواب کبھی نہ ڈھونڈ پاؤں_
رات دروازے کی دستک پہ دھیاں نہ دیا__،،،،
صبح پیروں کے نشاں دیکھے تو بہت روۓ___،،،!!!
آج بھی وہ شخص سرد راتوں میں شال اوڑھے کسی کی یاد میں بہت دور نکل
جاتا ہے-
اور سگریٹ کی طرح خود کو کسی کیلۓ ہمیشہ سلگتے چھوڑ دیا_
چھوڑ دیا_
بھلا جانے والے بھی لوٹا کرتے ہیں-
نادان پرندے گھر آجا!!!!